Labels

Saturday, 16 May 2020

وزیر اعظم کی جانب سے احساس لیبر پروگرام کا افتتاح کر دیا گیا جس کے تحت 20000 روپے- رجسٹریشن کے لیے لنک پر کلک کریں ۔

دنیا بھر میں جہاں وبا سے لاکھوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں، وہیں ’لاک ڈاؤن‘ کی وجہ سے کروڑوں مختلف قسم کی مالی مشکلات کا بھی شکار ہیں۔ ’بلوم برگ‘ نامی کاروباری خبررساں ادارے کے مطابق عالمی وبا پانچ ہزار ارب ڈالر کھا جائے گی۔ امیر طبقہ کے لئے گھر میں بیٹھ کر وسائل کا استعمال آسان عمل ہے۔ متوسط طبقہ کے پاس بھی اپنے ذخائر کے استعمال کاحق انتخاب موجود ہے۔ مگر غریب اور نچلے متوسط طبقے روزگار سے محروم ہو کر بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔ دنیا بھر میں موجود ترقی یافتہ ممالک افلاس سے نمٹنے کے لئے اربوں ڈالر کی امدادی رقوم مختص کر رہے ہیں۔ پاکستان بھی دنیا بھر سے ملنے والی امداد کو بروئے کار لا رہا ہے۔ عالمی بینک کے ملکی سطح کے سربراہ کے مطابق،پاکستان کو ایک ارب ڈالرکی امدادی رقم فراہم کی جائے گی۔ بیس کروڑ ڈالر کی ادائیگی ہو چکی ہے، 

صحت کے شعبہ پر پندرہ کروڑ اور احساس پروگرام پر پانچ کروڑ ڈالر مختص کئے گئے ہیں۔ حکومت امداد کو بروئے کار لا کر 1.2ٹریلین روپوں کے احساس منصوبے پر کام کررہی ہے۔اس منصوبے میں بہت سے شعبوں میں امداد کے ساتھ، فوری طور پر144ارب روپوں پر مشتمل رقم ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں میں بارہ ہزار روپے فی فرد کے حساب سے جاری کی جارہی ہے۔ جس کی ادائیگی کے حصول کے لئے سترہ ہزار مراکز قائم کئے جا رہے ہیں،جب کہ سات ہزار سے زائد مراکز کام انجام دے رہے ہیں۔ 

اس پروگرام کو وزیراعظم کی معاون ثانیہ نشتر دیکھ رہی ہیں۔ بلا شبہ پاکستانی تاریخ میں غریب طبقے کے لئے براہ راست موئثر و شفاف طریقے سے رقوم پہنچانے کا ایک بڑا منصوبہ ہے۔وزیراعظم اور ثانیہ نشتر کے اس منصوبے پر 
اقدامات قابل رشک ہیں اور وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔


اب حال ہی میں وزیر اعظم کی جانب سے احساس لیبر پروگرام کا افتتاح کر دیا گیا ہے جس کے تحت 20000 روپے ان افراد کو دی جائے گی جس کا کاروبار کروانا وائرس سے متاثر ہو چکا ہو۔ اور اس کی رجسٹریشن شروع ہو چکی ہے ۔ یہ رقم عید سے کچھ دن پہلے مل جائیں گی ۔

رجسٹریشن کے لیے لنک پر کلک کریں ۔

مشکل کے اس وقت میں غبن کو روک کر اصلی حقداروں تک امداد کی رسائی بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ خدارا! یہ وقت سیاست کا نہیں بلکہ فوری اہم اقدامات کا ہے،مل جل کر کام کرنے کا ہے۔ حکومت کو اپنے حساب کتاب میں لاک ڈاؤن کے بعد پیش آنے والے مسائل کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔موجودہ حالات میں 360ڈگری کی سطح پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

No comments:

Post a Comment