بیت المقدس، القدس، یروشلم ایک ہی شہر کے نام ہیں. فلسطین میں واقعہ یہ شہر بہت ہی اہمیت رکھتا ہے. اس شہر میں موجود مسجد اقصی وہ مسجد ہے جو اللہ کے پیغمبر حضرت سلیمان علیہ سلام نے جنات کی مدد سے تعمیر کروائی. ہمارےپیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ معراج کی رات اس مسجد میں تشریف لے گئے تھے. اس مسجد کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا
بیت المقدس مسلمانوں کے پاس پہلی مرتبہ حضرت عمر ؓ; کے دور میں آیا. پھر سلطان صلاح الدین ایوبی نے بھی فتح کیا. عثمانی سلطنت کے پاس سلطان سلیم اول کے دور کے بعد سے رہا. عثمانیوں کے زوال کے بعد سے اسرائیلی یہودیوں نے فلسطین پر قبضہ کرنا شروع کیا. فلسطین میں یہودیوں نے مسلمانوں پر اب تک بے تحاشا ظلم ڈھائے ہیں. اور یقین جانیئے پوری دنیا خاموش تماشائی بنی رہی ہے. یا پھر زیادہ سے زیادہ ہم لوگوں نے اس کی زبانی "مذمت" کر دی اور ہمارا فرض پورا ہو گیا. عملی قدم کسی نے نہ اٹھایا
پہلے دن سے یہ بات طے ہے کہ اسرائیل کو امریکہ کی مکمل سپورٹ اور مدد حاصل ہے
اگر آپ لوگ حالات حاضرہ سے کچھ آگاہ ہیں تو یہ جانتے ہوں گے کہ حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا بکواس کی ہے؟؟؟
ٹرمپ نے کہا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنا دیا جائے
اور اس بات سے ہم میں ابھی تک ہلچل پیدا نہیں ہوئی؟ اور اس کی وجہ ہماری نوجوان نسل کی تاریخ سے دوری ہے. ہم جانتے ہی نہیں کہ بیت المقدس ہمارا قبلہ اول ہے. اور ہمارے بزرگوں نے کتنی قربانیوں سے اسے فتح کیا تھا
اور عالم اسلام میں اس بات پر سب سے پہلے بیان ملت اسلامیہ کے عظیم لیڈر صدرِ ترکی محترم رجب طیب اردگان کا آیا. انہوں نے کہا کہ "قدس مسلمانوں کی سرخ لائن ہےیعنی وہ علاقہ جسے کوئی پار نہیں کر سکتا، ٹرمپ خطے میں امن نہیں چاہتے." اس کے ساتھ ہی طیب اردگان نے اسرائیل اور امریکہ سے تمام سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان بھی کیا. ترکوں نے اسی دن سے آواز اٹھا رکھی ہے. آج بھی وہاں مظاہرے کیئے جا رہے ہیں. اب آہستہ آہستہ مخلتف اسلامی ممالک میں بحث چھڑ گئی ہے. ہنگامہ برپا ہو رہا ہے. دیکھا دیکھی عرب ممالک کے حکمران بھی کچھ بولے. وہی سعودی سلاطین جو کل تک ٹرمپ سے بغل گیر نظر آتے تھے. اور امریکہ کے دوست بنے پڑے ہیں
اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ کہاں ہے 34 اسلامی ملکوں کی اتحادی فوج کہاں ہے؟ کس کام کے لیئے بنائی گئی تھی؟؟ دکھاوے کے لیئے؟
معذرت کے ساتھ .. لیکن مجھے اب بھی عربوں سے کچھ امید نہیں. عرب سے محمد بن قاسم آنا کب کے بند ہو گئے. اب عرب اسلام اور مسلمانوں کی بقا کے لیئے کچھ نہیں کریں گے. لیکن یہ وقت ہے اتحاد کا.. یکجہتی کا.. دنیا کو یہ دکھانے کا کہ مسلمان دنیا کے کسی بھی خطے میں ہیں، وہ ایک قوم ہیں. اور ان کی غیرت جاگ رہی ہے
میرا اب سے ایک ہی نعرہ....قدس ہمارا، قدس ہمارا...
اور مجھے یاد پڑ رہا ہے سلطان عبدالحمید دوم کا دور.. جب 1901ء میں زیونسٹ یہودی 150 ملین پاؤنڈز کے ساتھ سلطان کے پاس آئے اور کہا کہ ہمیں فلسطین بیچ دو. انہوں نے کہا تھا
"میں کسی بھی قیمت پر فلسطین کا ایک انچکا ٹکڑا نہیں دوں گا کہ یہ فلسطین میرا نہیں ہے. یہ فلسطین تمام ملت اسلامیہ کا ہے. مسلمان قوم نے اس کے لیئے اپنے خون سے قربانیاں دی ہیں. اگر اسلامی خلافت کسی دن ٹوٹ گئی تو تم بغیر کسی قیمت کے شاید فلسطین حاصل کر لو. مگر جب تک میں زندہ ہوں، میں فلسطین کو اسلامی سلطنت سے علیحدہ دیکھنے سے بہتر سمجھتا ہوں کہ اپنے جسم میں تلوار گھونپ دوں"
میرا خیال ہے کہ تمام اسلامی ممالک خصوصا جو دفاعی لحاظ سے مضبوط ہیں، سبھی کو ترکش صدر رجب طیب اردگان کے جھنڈے تلے ایک ہونا چاہیئے. ہم خاموش رہے برما میں مسلمانوں پر ظلم کے باوجود،، ہم خاموش رہے جب شام بکھر گیا، ہم خاموش رہے جب کشمیر کو مارا گیا،، ہم خاموش رہے جب غزہ میں قتل عام ہوا.. لیکن اب ہمیں اٹھ کھڑا ہونا چاہیئے. اے میرے عزیز مسلمان بھائیو! آؤ ہم خوب غفلت سے جاگ جائیں.
بیت المقدس کے لیئے.
اسلام کے لیئے.
اپنے مظلوم بھائیوں کے لیئے.
اپنی بے آسرا بہنوں کے لیئے.
اپنے خیالات کا اظہار ضرور کیجیئے..
No comments:
Post a Comment